Buy website traffic cheap

پروفیشنل حلالہ

پروفیشنل حلالہ… کالم نویس محمد ثقلین رضا

پروفیشنل حلالہ
محمدثقلین رضا
(پروفیشنل حلالہ)’’ذیشان کیساتھ میری شادی شدہ زندگی اچھی بسر ہورہی تھی ‘طویل رفاقت کے باوجود ہم دونوں کے درمیان ایک باریک سی لکیر تھی جب ہم اس لکیر کے پاس پہنچتے تو ہمارے لب خود بخود خاموش ہوجاتے اور ہم ایک دوسرے کو مطعون ٹھہرائے بغیر دیکھتے رہتے مگر زبان سے ایک لفظ تک ادا نہ ہوتا۔وہ لکیر اولادتھی۔ مجھے پتہ تھاکہ ذیشان اس حوالے سے خالی ہے مگر اس کے باوجود میں رشتے کو نباہ رہی تھی ۔ یہ خاموش لکیر بڑھتے بڑھتے ایک خلیج بن گئی اور بالآخر یہ طوفان بھونچال لے آیا۔ ذہنی مریض بنتے ذیشان نے مجھے طلاق دیدی۔
میرے اندر بھی بھونچال آگیا کہ میری قربانیوں کایہ صلہ‘ کئی دنوں کے بعد ذیشان نے رابطہ کیاکہ وہ اپنے کئے پرشرمند ہ ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ بحیثیت مسلمان جانتاہوگا کہ طلاق کے بعد دوبارہ رجوع کیسے کیاجاسکتاہے ‘ اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ شرعی طورپر ایک دوسرے کے رفیق کیسے بن سکتے ہیں مگر وہ بضد رہا‘ایک دن اس نے آئیڈیاپیش کیا کہ اس کا ایک دوست ہے جو باقاعدہ نکاح کرکے مجھ سے شادی کریگااور پھر طلاق دے گا تو میں عدت پوری ہونے پردوبارہ رجوع کرلونگا ۔ پھر ایک دن ذیشان نے بتایا کہ میرادوست کم ازکم دو دن تک نکاح میں رکھناچاہتا ہے حالانکہ وہ ایک ہفتے سے کم پر راضی نہ تھا لیکن ذیشان کے زور دینے پر بمشکل دودن بعد طلاق پرراضی ہوا۔ میرا ذہن ماؤف تھا کہ اگر میں دوبارہ ذیشان کی زندگی میں شامل ہوناچاہتی ہوں تو مجھے یہ کام کرناپڑیگا ۔ خدا نے میری رہنمائی کی ‘میرے گھروالوں نے ذیشان کی خواہشوں کو مٹی میں ملادیا ‘میری شادی ایک اورشخص سے ہوگئی اورآج میں بچوں سمیت خوشحال زندگی بسر کررہی ہوں‘‘
صاحبو!یہ ایک کہانی نہیں بلکہ معاشرے میں پھیلے زہرکاعکس ہے‘ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے‘ معاشی مجبوریوں اوربعض دیگر عوامل کے باعث جب میاں بیوی میں طلاق ہوجائے توپھر ندامت کے بعد پھر سے ایک ہونے کی خواہش ہی حلالہ کی صورت سامنے آتی ہے۔ اسے بدقسمتی ہی سمجھاجاسکتا ہے کہ حلالہ کاتصور غلط انداز میں لیاگیا حالانکہ شرعی اعتبار سے اگر کوئی طلاق یافتہ عورت یا مرد شادی کرناچاہیں تو ان کی نیت نکاح کے بعد طلاق کی نہ ہو۔ لیکن ہمارے ہاں اسے بھی ایک کاروبار بنادیاگیاہے۔
کا روبار سے یادآیا کہ اب تو باقاعدہ کئی سینٹرز بنادئیے گئے ہیں جو حلالہ کی سہولت فراہم کرتے ہیں ۔بیرون ممالک اس کاروبار کی ’’ترقی‘‘ دیکھ کر اب بڑے شہروں میں باقاعدہ سینٹرز نے تشہیری مہم اس زور سے چلائی ہوئی ہے کہ بحیثیت مسلمان شرمندگی ہوتی ہے۔
ہمیںآج کی تیز رفتار ترقی نے بے شمار سہولیات فراہم کردی ہیں تو ان سہولیات کو ہرشخص نے اپنی مرضی کے مطابق موم کی ناک سمجھ کرموڑ دیا ہے۔گوگل پر حلالہ سینٹر سرچ کریں تو بے شمارخوشنما اشتہارات سامنے آجاتے ہیں۔ ’’حلال طریقے سے حلالہ کروانے کی سہولت‘‘ اب باقاعدہ رہائشی سہولیات اور دیگر ضروریات کا بھی ذکر کیاجاتاہے ۔ ان سنٹروں کے علاوہ باقاعدہ اشتہارات کے ذریعے حلال حلالہ کی ترغیب دی جاتی ہے ‘اس کا ثبوت گوگل سرچ سے بھی مل سکتاہے اس کے علاوہ کئی ایسی ویب سائٹس بھی موجود ہیں جہاں ایسے حلالہ کے حوالے سے نوجوانوں کی خوشنما پیشکش سامنے آتی ہیں باقاعدہ موبائل نمبر اورفراہم کردہ سہولیات کا ذکر ‘یہ وہ عوامل ہیں جو سامنے آگئے ورنہ جہاں جہاں طلاق کی شرح زیادہ ہے وہاں حلالہ کی شرح اسی اعتبار سے بھی بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔
صاحبو! ایک دوست نے معلومات میں یوں اضافہ کیا کہ بیرون ممالک اب تو خصوصی سینٹرز بنے ہوئے ہیں جو محض مسلمانوں کیلئے ہی مختص ہیں۔ ان سینٹروں میں ایک رات سے لیکر ایک ہفتہ یا مابعدشادی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اورباقاعدہ معاوضہ طے کیاجاتاہے ۔ بتانے والے نے بتاکرحیران کردیا کہ انہی سنٹروں پر طلاق یافتہ عورتیں دوبارہ اپنے سابقہ شوہر وں سے رجوع کرنے کیلئے حلالہ بھی کراتی ہیں ۔ یہ سلسلہ اتنی سرعت سے پھیلا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں بھی شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم کس راہ پر چل نکلے ہیں۔
حلالہ کو آسان سمجھنے والے شاید نہیں جانتے کہ محض ایک فعل کی بدولت عورت کی ذہنی اورجسمانی کیفیت کیاہوتی ہے ؟ عورت محض سابقہ شوہر کی خواہش پر دوبارہ رجوع کرنے کی خواہش میں ایک غیر محرم کیساتھ عارضی نکاح کی سولی پر لٹک جاتی ہے۔
صاحبو! پاکستان شرعی کونسل نے بیک وقت تین طلاق دینے پر سزاؤں کااعلان کیا ہے اس حوالے سے فقہ ہائے کی رائے بھی الگ الگ ہے کونسل کا مقصد ہی یہی ہے کہ معاشرہ میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کو کم کیاجائے ۔طلاق عموماًنامناسب رویوں‘ اولاد کے نہ ہونے ‘ معاشی مجبوریوں کے باعث ہی ہوتی ہے اورجب غصہ پورے انتہا کو پہنچ جائے تو شوہر کے منہ سے نکلنے والے لفظ ’’طلاق طلاق طلاق‘‘سے رشتوں کی ہیئت ہی بدل جاتی ہے۔ بعد میں جب دونوں کو ندامت ہوتو شوہر حلالہ کامشورہ دیکر خودایک طرف ہوجاتااورپھر ذہنی جسمانی ٹارچر عور ت کو بھگتناپڑتا ہے۔ گو کہ شرعی اعتبار سے حالت غیض وغصہ بیک وقت تین طلاقوں کی ممانعت کی گئی ہے لیکن حالت شدید میں دی گئی طلاقوں کی شرح حقیقت کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔
حلالہ کے نام پر معاشرے میں جاری بھیانک اور ان سنٹروں میں ہونیوالا نفسانی کھیل کسی اعتبار سے بھی شرعی طورپر حلال نہیں سمجھا جاسکتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشر ہ کے ذی شعور طبقات ان بڑھتے ہوئے رجحانات کو کم کرنے کیلئے ا پنا کردار مثبت انداز میں اداکریں۔