Buy website traffic cheap


ٹیکس کلچر کو پرموٹ کرنے کی ضرورت

ٹیکس کلچر کو پرموٹ کرنے کی ضرورت
سیدعارف نوناری
ٹیکس دینا اور ٹیکس کو عوام کے لئے مناسب طریقہ سے خرچ کرنا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ٹیکس دنیا شہریوں کا بھی فرض ہے اور ذمہ داری بھی ہے۔ ترقی یافتہ اور یورپی ممالک کی صنعتوں کی ترقی، زرعی ترقی، معاشی ترقی کو دیکھ لیں ٹیکس کلچر کے سبب یہ سب کچھ ممکن ہوا۔ وزیراعظم نے بھی عوام سے شکایت کی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے تو ملک کیسے چلے گا اور 14 ماہ میں کیسے تبدیلی آئے گی بھیک مانگ کر اور قرضے لے کر قومیں نہیں بنتی ہیں۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا خود مختار قوم بننا ہے تو ٹیکس دینا پڑے گا۔ ٹیکس دینا کیوں ضروری ہے اور ٹیکس سے کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جس طرح ٹیکس کی ادائیگی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اسی طرح ٹیکس نہ ادا کرنے کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کا ٹیکس نہیں لگے گا بلکہ سیاست اور کرپشن کی نظر ہو گا۔ جس کے سبب وہ ٹیکس دینے کا ارادہ کے باوجود ٹیکس نہیں دیتے ہیں۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور دنیا کے ہر مسئلہ کو حل اسلام کی سنہری اصولوں میں وجہ ہے۔ ریاست مدینہ کا مطالعہ اس کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ زکوٰۃ کا نظام اسلام میں اسی لئے ہے کہ روپے کی تقسیم میں مساویانہ بنیادوں پر ہوتی رہے اور غربت کا خاتمہ ہو۔ اسی طرح عشر کا نظام بھی بہت سی معاشرہ کی مشکلات کو دور کرتا ہے۔ جب قوم کو یقین ہو جاتا ہے کہ کروڑوں کے ٹیکس کی رقم کو حکومت نے استعمال میں لا کر عوام کو ریلیف دینا ہے تو ٹیکس کلچر خود بخود پروان چڑھتا ہے۔ ٹیکس کلچر کو پروان چڑھانے کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔معاشی نظام کو مستحکم کرنے کے لئے بند پڑی صنعتی یونٹس پر بھی وزیراعظم نے توجہ دی ہے صنعتی شعبہ کی بحالی اور اصلاحات کے لئے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کاروبار میں آسانیاں پیدا کی جائیں تو سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔ ایف بی آر کی کمپین کے سبب اگرچہ اب پاکستان کے ٹیکس فائلز میں لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن سیمینار ارو آگاہی مہم کے ذریعہ یونین کونسل، ضلع اور تحصیل کی سطح پر آگاہی مہمیں ہونی چاہئیں۔ جس میں عوام کو قائل کیا جائے ٹیکس کے سبب ہی ملک کی معاشی بنیادیں مضبوط اور ملک ترقی کی طرف قدم رکھ عوامی مسائل کو حل کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ جب تک عوام ٹیکس کو بوجھ تصور کریں گے۔ تب تک ملک میں ٹیکس کی ادائیگی کی ریت و رواج کم ہوتا رہے گا۔ پاکستان میں اعداد و شمار کے مطابق بہت سے پاکستانی اپنی جائیدادیں چھپاتے ہیں۔ اپنے کاروبار کو ظاہر نہیں کرتے ہیں۔ جس سے سرکاری خزانہ میں دولت جمع نہیں ہوتی ہے۔ ٹیکس کلچر کی پرموشن کے لئے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ پروگرامز، سرکاری ٹیوی ویژن ایسے خصوصی پروگرامز کی تشکیل کرے کہ جس سے عوام ٹیکس کی آمادگی پر راضی نظر آئیں۔ پچھلی حکومت میں ٹیکس کلچر پرموشن سوسائٹی کی تشکیل کے لئے ایسے اقدامات کئے گئے تھے حالانکہ دنیا بھر میں پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو دیکھ لیں۔ وہاں بھی ٹیکس کی ادائیگی شہری مقدس فریضہ خیال کرتے ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں امیر ترین افراد نے جائیدادیں کسی نہ کسی طریقہ سے چھپائی ہوئی ہیں۔ یا اپنی جائیدادیں کسی اور کے نام منتقل کی ہوئی ہیں۔ ٹیکس دہندگان کے لئے ملک بھر میں ایوارڈ کا سلسلہ بھی شروع کرنا چاہئے اور کچھ خصوصی مراعات جیسے اشیاء کی خریداری، ہسپتالوں، ادویات وغیرہ میں دینی چاہیں تاکہ عوام ایسے حکومتی اقدامات کے ذریعہ ریاست کا اچھا شہری ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ موجودہ حالات میں ملک کو اسی وجہ سے گھمبیر قسم کے معاشی و اقتصادی مسائل کے سبب ملک کو سنبھالا دینے میں شدید مشکلات ہیں اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے سے نکل نہیں پا رہا ہے۔ اقتصادی صورت حال سالوں سے پچھلی حکومتیں خراب کرتی آئی ہیں اور حساب ان کو دینا پڑ رہا ہے۔ کامیاب جواں پروگرام کے تحت ملک بھر سے 10 لاکھ نوجوانوں کو میرٹ پر 100 ارب روپے قرضے دینے کا پروگرام ہے۔ ان میں 25% قرضے خواتین کے لئے ہیں۔ ”کامیاب جوان پروگرام“ یقیناً نوجوانوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کرنے کا وسیلہ ے۔ لیکن بات ہو رہی تھی ٹیکس کلچر کی تو ٹیکس کلچر کو پرموٹ کرنا ہر شہری کا فریضہ ہونا چاہئے۔ پاکستان کی آبادی میں اضافہ اور وسائل پر بوجھ بھی ملکی معیشت پر اثر انداز ہوتا ہے اور ٹیکس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ٹیکس تجاویز لینی چاہئیں۔ افواج پاکستان سے بیوروکریسی سے، تاجران سے، صنعت کاروں، سرمایہ داروں اور اوورسیز پاکستانی سے اور ان تجاویز کی روشنی میں قابل عمل پلان تیار کر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کے لئے اقدامات اور عوامی ردعمل کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔ بھارت کی حکومت امیر ہے اور پاکستان کی غریب، اس طرح پاکستان کی عوام امیر ہیں اور بھارت کی غریب یہ فرق ہے دونوں ممالک کا اب ٹیکس کے ذریعہ پیسہ کس طرح اکھٹا کر کے پاکستان کی حکومت کو امیر کرنا ہے۔ سوچنا اور عمل درآمد اس بات پر ہے۔ ٹیکس میں اضافہ کس طرح کرنا ہے۔ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکس اصلاحات کا بھی مطالعہ کرنا ہے تاکہ پاکستان کی معیشت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے سرمایہ کاروں کو شامل کر اصلاحات کا ایجنڈا تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کرپشن اور ٹیکس دو ایسے عناصر ہیں جن کے لئے وقت درکارہے۔ عمران خاں کا بھی یہی کہنا ہے بٹن دبانے سے تبدیلی تو نہیں آتی ہے کئی عشروں سے جو بگڑی ہوئی قوم کو اس سیدھے راستے پر لانے کے لئے 14 ماہ کافی نہیں ہیں۔ عوامی رائے بھی یہی ہے کہ اگر عمران خان ملک کو مستقبل بنیادوں پر قائم کرنے کی منصوبہ بندی میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ بھی مہاتیر محمد ثابت ہوں گے۔ نظاموں میں بہتری لانے کے لئے وقت اور منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ ریاست مدینہ کو بھی ریاست مدینہ بننے میں وقت لگا تھا۔ حضور پاک ﷺ کی زندگی مکی اور مدنی کے حالات واقعات آپ کے سامنے ہیں کہ کس طرح صدیوں پرانے نظام کی تبدیلی ریاست مدینہ میں ہوئی اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں ٹیکس نظام یعنی مؤثر ٹیکس نظام اور جزیہ کے تصور سے کئی لاکھوں میلوں پھیلی اسلامی ریاست کو خلفائے راشدین نے مؤثر نظام کے ذریعہ چلایا۔ جس میں اب کے مصر، شام، ایران، عراق، فلسطین، یمن، سعودی عرب اور دیگر ممالک ایک ریاست تھے۔ ٹیکس کلچر موجود تھا۔ پاکستان میں بھی اسلامی ٹیکس نظام کے ذریعہ ملک ترقی اور تبدیلی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔