Buy website traffic cheap

censuss

مردم شماری’’کھوہ کھاتے‘‘ اور شفاف الیکشن

اشفاق رحمانی
خبر کے مطابق شاہد خاقان عباسی کو بطوروزیراعظم مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شماریات ڈویژن کی طرف سے مردم شماری کے نتائج پیش کئے گئے جس میں تین صوبوں ، سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان کی مخالفت کے باعث نتائج کے حتمی اعلان کو’’ اگلی حکومت بننے تک‘‘ موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیاجبکہ شماریات بیورو کے جاری کردہ حتمی نتائج میں صوبائی تدوین کے برعکس 68 ہزار 738افراد کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ عام انتخابات میں دو ماہ سے بھی کم’’ مدت ‘‘ رہ گئی ہے تاہم ’’ مشترکہ مفادات کونسل‘‘ نے مردم شماری کے حتمی نتائج کے اعلان کو موخر کرکے’’سیاسی گرما گرمی‘‘ کو ایک قانونی شکل دے دی یے، چھٹی مردم شماری ، سپریم کورٹ کے حکم پر فوج کی نگرانی میں تکمیل تک پہنچی، خانہ اور مردم شماری کے عمل کے دوران ’’پنجاب‘‘ سے اس پر’’اعتراض‘‘ نہیں ہوا۔ شماریات بیورو نے ابتدائی اعداد و شمار جاری کئے تو الیکشن کمشن کو آبادی کے بڑھنے کے باعث ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بڑھانے اور نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کرنا پڑیں۔ اب جبکہ اس حوالے سے سارا کام مکمل ہو چکا ہے تو سندھ کے پی کے اور بلوچستان نے ایک’’ نیامسئلہ‘‘ کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈور کے مطابق سندھ اور دیگر دو صوبوں میں مردم شماری کے نتائج کو وفاق کے فنڈز سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے لئے مبینہ طور پر ’’متنازعہ‘‘ بنایا جا رہا ہے۔ اگر ان فنڈز کو دیانت داری سے خرچ کیا جائے تو معترض صوبے بھی ’’ ترقی کی منازل‘‘ ہمسایہ صوبے کی طرف جلد طے کر سکتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کی آبادی کو کم دکھایا ہے اگر نتائج پرکسی صوبے کا شک کرنا بنتا تھا تو وہ پنجاب تھا۔ لیکن پنجاب نے شماریات بیورو کے جاری کردہ نتائج کو بلا چوں و چرا تسلیم کرلیا۔اب مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس نے جو فیصلہ کیا ہے اس سے قومی پیشرفت کا عمل مزید پانچ چھ سال کے لئے رک جائے گا اور اگر سندھ کے مطالبے پر کرائے گئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے نتائج بھی مختلف نہ ہوئے تو پھر بے جا اور غیر ضروری ایشو کھڑا کرنے کا الزام سندھ پر آئے گا۔ قارئین محترم الیکشن کی آمد آمد ہے اور ’’نئے‘‘ وزیر اعظم و صوبائی وزرا اعلیٰ کا ’’انتخاب‘‘ بھی مکمل ہو چکا،حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے نگران وزیراعظم کیلئے جسٹس ناصرالملک کی نامزدگیکو’’ خوش آئند‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم آئینی سیٹ پر ’’سابق‘‘ چیف کا تقرر ’’سوالات‘‘ کو چھوڑے گا، ایک بات تو انتہائی اہم ہے کہ اب عام انتخابات کے مقررہ آئینی میعاد کے اندر انعقاد کے بارے میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس ناصرالملک پر حکمران مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی، تحریک انصاف سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں نے ’’مکمل اتفاق‘‘ کیا ہے چنانچہ یہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں بلاشبہ ایک یادگار فیصلہ ہے۔ چونکہ اپوزیشن کیلئے قابل قبول الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ نگران وزیراعظم کی نامزدگی بھی متفقہ طور پر عمل میں آئی ہے اس لئے اب انتخابات کے نتائج پر کسی قسم کے سوالات اٹھانا اور انتخابات کے عمل کی شفافیت پر کوئی اعتراض اٹھانا بہت مشکل ہوگا۔اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے تا حیات نا اہل کئے گئے شخص کے حوالے سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ انہیں نگران وزیراعظم کیلئے کوئی سابق جج،کوئی سابق جرنیل اور کوئی سابق بیوروکریٹ قابل قبول نہیں اور وہ سیاست دانوں میں سے کسی کو نگران وزیراعظم بنانے کے حق میں تھے تاہم وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے رہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ اپوزیشن لیڈر نے نگران وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جانے کا عندیہ دے دیا جبکہ یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں بھی طے ہوتا نظر نہیں آرہا تھا ، مقتدر حلقوں میں سیاست دانوں کو مطعون کیا جارہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر کوئی فیصلہ کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں چنانچہ اب نگران وزیراعظم کا فیصلہ بھی الیکشن کمیشن کو ہی کرنا پڑیگا۔ اگر آج حکومت اور اپوزیشن نے نگران وزیراعظم کیلئے اتفاق رائے سے فیصلہ کرکے سیاست دانوں کے بارے میں قائم ہونیوالی رائے باطل ثابت کردی ہے تو یہ فی الواقع جمہوریت کی فتح ہے اور اس سے 2008ء سے تسلسل کے ساتھ چلنے والے پارلیمانی جمہوری نظام کے مستحکم ہونے کی ضمانت بھی مل گئی ہے۔ نگران وزیراعظم جسٹس ناصرالملک کا بطور جیورسٹ شاندار عدالتی ریکارڈ ہے، پشاور ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری اور صدر کی حیثیت سے وکلاء برادری میں نمایاں مقام حاصل کیا اور پھر 1993 میں ایڈووکیٹ جنرل صوبہ سرحد مقرر ہوئے جبکہ جون 1994ء میں انکی بطور جج پشاور ہائیکورٹ تعیناتی عمل میں آئی اور 31 جولائی 2004ء کو انہیں چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کے منصب پر فائز کردیا گیا جبکہ 2005 میں انکی بطور جج سپریم کورٹ تعیناتی عمل میں آگئی۔ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کی حیثیت سے امریکی ڈرون حملوں کیخلاف یادگار فیصلہ صادر کیا اور حکومت کو ڈرون حملوں میں جاں بحق اور زخمی ہونیوالوں کے لواحقین کو ہرجانہ ادا کرنے اور آئندہ کیلئے ڈرون حملوں کی اجازت نہ دینے کا حکم صادر کیا۔ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے عدالت عظمیٰ کے اس وسیع تر بنچ میں شامل تھے جس نے بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کی درخواست منظور کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف کو اسمبلیاں نہ توڑنے اور ملک میں ایمرجنسی نافذ نہ کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم مشرف نے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے 2 نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی اور پی سی او نافذ کردیا اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا کہا۔ اس سے پہلے وہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے فرائض ادا کررہے تھے اور انکے اس منصب کے دوران ہی انکی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ نامزدگی عمل میں آئی جن پر انتخابی دھاندلیوں کے کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے مکمل اعتماد کا اظہار کیا جبکہ وہ حکمران مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے بھی قبولیت کی سند حاصل کرچکے تھے۔ اس تناظر میں انہیں نگران وزیراعظم کیلئے حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے متفقہ طور پر قبول کیا گیا ہے تو انکے ماضی کے شاندار ریکارڈ کی روشنی میں اس کا جواز پہلے ہی موجود تھا جبکہ صوبہ خیبر پی کے سے تعلق ہونے کے ناطے بھی وہ نگران وزیراعظم کیلئے موزوں سمجھے گئے ہونگے اور کے پی کے حکومت بھی اسی تناظر میں انکے نام پر متفق ہوئی ہوگی۔ملک میں یکم جون تک نگران سیٹ اپ ’’مکمل قائم‘‘ ہو جائیگا،جس نے دوماہ سے بھی کم عرصہ میں آزادانہ،منصفانہ اور شفاف انتخابات کے تمام مراحل طے کرکے عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنیوالے نئے حکمرانوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھانا ہے۔ یہ بلاشبہ انتہائی اہم اور نازک ذمہ داری ہے جس میں نگران سیٹ اپ سرخرو ہوگیا اور اسکے زیرنگرانی ہونیوالے انتخابات پر کسی قسم کی دھاندلی کا انفرادی یا اجتماعی دھبہ نہ لگا تو یہ سیٹ اپ قومی سیاسی تاریخ میں یادگار قرار پائے گا۔ اب انتخابات کے عمل میں کسی کی جانب سے روڑے اٹکانے اور قیاس آرائیوں کی ہوائیاں چھوڑنے کی بہرصورت کوئی گنجائش نہیں رہی۔