Buy website traffic cheap

مائنس ون کا نہیں عہد وفا کا وقت ہے!

جستجو ئے خوب سے خوب ترکی تلاش !

تحریر:شاہد ندیم احمد
پاکستان کے چاروں صوبوں میں پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے دعوے اور وعدے تو بہت کیے جاتے رہے ، لیکن سیاست سے محکمہ پولیس کی دوری حکمراں سیاسی جماعتوں کے لیے سود مند نہیں سمجھی گئی ہے۔ پنجاب میں پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت اور سربراہان و افسران کی تبدیلی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سیاسی مداخلت کا معاملہ اتنا بڑھا کہ سپریم کورٹ کو نوٹس لے کر تنبیہ کرنا پڑی،اس کے باوجودوفاقی حکومت نے دوسال کے عرصے میں پنجاب کے پانچویں انسپکٹر جنرل پولیس کو ہٹا کر چھٹا تعینات کر دیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی،سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی تقرری پر اعتماد میں نہ لینے اور چین آف کمانڈ کی خلاف ورزی پر آئی جی پولیس شعیب دستگیر نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے شکایت کی تھی،معاملہ وزیراعظم تک پہنچا تو انہوں نے عمر شیخ کو عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے آئی جی کو ہٹا کرگریڈ 21کے افسر انعام غنی کو تعینات کر دیا ہے۔ اس پر ایک طرف ایک اے آئی جی طارق مسعود یٰسین نے ان سے سینئر ہونے کی بنیاد پر ان کے ماتحت کام کرنے سے انکار کر دیا تو دوسری طرف اعلیٰ پولیس افسروں کے ہنگامی اجلاس میں آئی جی پنجاب کے تبادلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سی سی پی او کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ حکومتی حلقوں نے آئی جی کے تبادلے کا دفاع کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ جو افسر ڈیلیور نہیں کریگا وزیراعظم کو اسے ہٹانے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے، جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ آئی جی کو مخالف سیاستدانوں کے خلاف حکومت کے انتقامی ایجنڈے کا حصہ نہ بننے پر ہٹایا گیا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے سیاسی بیان بازی سے قطع نظر یہ امرواضح ہے کہ پنجاب میں صرف دو سال میں اوپر تلے پانچ آئی جی پولیس تبدیل کئے گئے ہیں۔ اس طرز عمل سے ایک طرف گورننس کا سسٹم تباہ ہوتا ہے تو دوسری طرف پولیس کا مورال گرتا ہے ،جبکہ حکومت کہتی ہے کہ” جستجوئے خوب سے خوب ترکی تلاش “میں تبادلے کئے جاتے ہیں،لیکن جب تک کسی ایک افسر کو مقررہ مدت تک کام ہی کرنے نہیں دیا جائے گا تو وہ کارکردگی کیسے دکھائے گا؟ اس لئے تبادلے سیاسی مفادات سے بالا تر قواعد و ضوابط اور میرٹ کو مدنظر رکھ کر ہی کئے جانے چاہئیں،جبکہ یہاں تو ہر محکمے میں اعلٰی افسران صلاحیت و قابلیت کی بجائے سیاسی پشت پناہی کے مرہون منت ہیں ۔اس سے بھی بڑی ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جو سیاسی مداخلت کے بارے میں آگاہ کر تا ہے، اسے ہی عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ محکمہ پو لیس میں سیاسی مداخلت ہو رہی تھی، پولیس جیسے محکمے میں سیاسی مداخلت کا مطلب صاف نظر آرہا ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت کے کچھ عزائم ہیں،جنہیں پورا کرونا چاہتے ہیں۔
عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ وزیراعظم بننے سے قبل عمران خان سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت نہ کرنے کے ساتھ سیاسی مداخلت کو اداروں کی تباہی کا سبب قرار دیتے تھے ،لیکن اب حکومتی وزراءکھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ پانچ سو تبدیلیاں بھی کریں گے ۔ محکمہ پو لیس میں سیاسی پشت پناہی سے سب اچھی طرح آگاہ ہیں ،اس کلچر کا سد باب کر نے کی بجائے مزید پشت پناہی سنگین مذاق ہے کہ کسی شعبے کا سربراہ بار بار سیاسی مداخلت کی شکایت کرے اور آپ اس پر غور کرنے کی بجائے اسے ہی تبدیل کردیں، وزیراعظم جو سیاسی مداخلت کے حوالے سے نشاندہی کرتے تھے، وہی کچھ اب ہو رہا ہے ۔یہ سیاسی مداخلت کا ہی نتیجہ ہے کہ پولیس جیسے ادارے میں ڈسپلن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، سینئر پولیس افسران کا آئی جی تبادلے پر اجلاس بلانا قابل تشویش ہے ، محکمہ پولیس میںبے چینی ادارے کے ساتھ امن و عامہ کیلئے خطر ناک ہے۔ ایڈیشنل آئی جی پنجاب طارق مسعود کے کام کرنے سے انکار پر صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ سینئر اور پروفیشنل لوگ ذہنی خلفشار کا شکار ہو رہے ہیں۔ پولیس جیسے حساس شعبے میں اختلافی معاملات کو نہایت حکمت عملی کے ساتھ نمٹا نا چاہئے تھا، اگر پولیس انتقامی کارروائی پر اتر آئی تو نہایت ٹیکنیکل طریقے سے پنجاب حکومت ناک آﺅٹ بھی ہو سکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عمران خان کو ایک ایسے نیک نام آئی جی پولیس آفیسر کے بارے میں تلخ فیصلہ کرنا پڑا جسے سات ماہ قبل بڑے چاﺅ سے پنجاب کے اکھاڑے میں اتارا تھا۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ دونوںپہلے ہی اس حوالے سے خاصے بدنام ہو چکے ہیں کہ پنجاب میں کسی اعلیٰ افسر بالخصوص چیف سیکرٹری اور آئی جی کو ٹک کر کام نہیں کرنے دیتے اور بیورو کریسی و پولیس میں مسلسل اکھاڑ پچھاڑ سے محکموں کی کارکردگی زوال پذیر، سرکاری افسروں کا مورال ڈاﺅن کرنے کا باعث بن رہے ہیں، لیکن اس صورتحال کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کا مطلب بھی رٹ آف گورنس کا خاتمہ اور باغیانہ روش کی حوصلہ افزائی ہے۔ عمران خان اور عثمان بزدار نے اپنا وزن ایک سینئر افسر کے مقابلے میں جونیئر افسر کے پلڑے میں نہیں ڈالا، بلکہ اپنے احکامات کی خوش دلانہ تعمیل نہ کرنے والے اعلیٰ پولیس و انتظامی افسروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان میں سے کوئی ناگزیر، نہ حکم عدولی کے بعد قابل برداشت ہے، جبکہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو بھی اشارہ دیا گیاہے کہ انہیں اب بہترین کارکردگی سے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنا ہو گا۔ حکومت نے آئی جی کی قربانی دے کر جو سی سی پی او لاہور کو جوفری ہینڈ دیا ہے، وہ کو ئی ا نعام نہیں ،بلکہ ایک بڑا امتحان ہے۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ لاہور جیسا بڑا شہر عرصہ دراز سے قبضہ گروپوں کے نرغے میں ہے اور محکمہ پولیس جانتے بوجھتے ہوئے کاروائی سے گریزاں رہی ہے ،کیو نکہ ایسے جرائ، پیشہ ور عناصر نے انتظامی و قانونی اہلکاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔جرائم پیشہ گروہوں کے طاقتور ہونے سے قانون شکنی عام ہو چکی ہے اور جرائم پیشہ ور لوگوں کے دل سے قانون کا خوف رخصت ہو گیا ہے۔پولیس کا اپنا تشخص، عوام کا ادارے پر اعتبار اور قانون کی بالا دستی برقرار رکھنا کبھی پولیس سربراہوں کی ترجیحات نہیںرہے ،اُن کی ترجیحات سر پرستی کرنے والے سیاسی قیادت کی خوشنودی رہی ہے ۔حکومت کو آئی جی کی تبدیلی کے ذریعے محکمہ پولیس میں بہتر ی لانے کی بجائے پولیس قوانین میں فوری اصلاحات لانے کی ضرورت ہے ، کیو نکہ جس پولیس کو انگریز کے بنائے ہوئے ایکٹ کے تحت بے تحاشا اختیارات حاصل ہوں،اس ایکٹ میں سزائیں سرے سے رکھی ہی نہ گئی ہوں اور معطلی کے سوا آئی جی کے پاس بھی کوئی اختیارات نہ ہوں تو پولیس والوں کے جرائم پیشہ مافیاز کے ساتھ گٹھ جوڑ کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ پولیس ریفارمز کے ذریعے جب تک پولیس کے اختیارات کو قانونی دائرے میں نہیں لایا جا تا اور پولیس والوں کے لئے بھی سخت سزائیں نہیں رکھی جاتیں، تب تک جتنا مرضی آئی جی تبدیل کرکے خوب سے خوب تر کی تلاش کر لیں ،پو لیس گردی کا پرنالہ وہیں کا وہیں رہے گا۔