Buy website traffic cheap

Column, Anwar Ali, Imran Khan, Mafias, Opposition

عمران خان اور مافیا

عمران خان اور مافیا
تحریر انور علی

جمہوریت میں ایک دوسرے کو برداشت کیا جاتا ہے اپوزیشن کے ساتھ مل کے پارلیمانی نظام چلایا جاتا ہے جس میں عوام کو درپیش مسائل اور ریاست سے متعلق معاملات پر قانون سازی کی جاتی ہے اور حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ پارلیمانی قانون سازی متفقہ ہو جو حکومت کی بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے لیکن آرمی ایکٹ میں قانون سازی پر اپوزیشن کی حمایت سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے حکومت کی فرسٹریشن کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک ٹاک شو میں حکومتی وزیر ”بوٹ” کی رونمائی کرتے پائے گئے اور انہوں نے ”بوٹ” کو اپنے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے خوب دل کی بھڑاس نکالی حتیٰ کہ کے اپوزیشن کو بوٹ چاٹنے کے طعنے سن کر پروگرام کا بائیکاٹ کرنا پڑا اب اس بات کا تو موصوف ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی پے سیخ پا ہیں یا اپوزیشن کی ”غیر مشروط” حمایت ان کے لیے ”درد سر” بنی ہوئی ہے
سابقہ حکومتوں کے برعکس موجودہ حکومت کا ”ہنی مون پیریڈ” کافی لمبا ہوگیا تھا لیکن اب کچھ معاملات پر غیر معمولی پیش رفت نظر آرہی ہے جو اپوزیشن کا بھی مطمع نظر تھا پے در پے اپوزیشن لیڈران کی گرفتاریوں سے یہ تاثر عام تھا کہ یہ احتساب صرف اپوزیشن کے لئے ہے اپوزیشن کے شور کے باوجود کرپشن کے میگا سکینڈلز جن میں بی آر ٹی پشاور بلین ٹری سونامی اور مالم جبہ کے علاوہ دیگر کئی کیسز شامل ہیں پر کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی تھی خسرو بختار کے اثاثوں کی چھان بین کے متعلق نیب کی انکوائری روک دی گئی کئی لوگوں کے نام نیب کی انکوائری لسٹ سے نکال دیئے گئے- کے پی کے میں اپنے ہی احتساب کے بنائے ہوئے ادارے نے جب کچھ وزیروں کے خلاف انکوائری شروع کی تو احتساب کا ادارہ ہی بند کر دیا گیا
لیکن اب احتساب کی بند انکوائریاں کھلنا شروع ہورہی ہیں خسرو بختار کے اثاثوں کی چھان بین کے ساتھ ساتھ اس کے بھائی کو بھی طلب کرلیا گیا ہے عدالتوں نے بھی حکومت کی نااہلی کا ”پوسٹمارٹم” شروع کر دیا ہے پہلے پی آئی اے کے معاملات پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور سی ای او ارشد ملک کو معطل کیا اب پاکستان ریلوے کے وزیر شیخ رشید احمد کو عدالت میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا عدالت نے دو ہفتوں کے لیے سماعت معطل کرتے ہوئے ریلوے وزیر سے جامع رپورٹ طلب کرلی ہے ایک اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے معاملات بھی عدالت اور الیکشن کمیشن پہنچ چکے ہیں جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا ہے معاملات حکومت کے کنٹرول سے باہر نکل رہے ہیں لیکن عمران خان ابھی بھی عوام کو تقریروں پر ہی ”ٹرخا” رہے ہیں ابھی بھی انھیں سب اچھا نظر آ رہا ہے ابھی بھی وہ کوئی ٹھوس اقدامات لینے کی بجائے ”ملبہ” سابقہ حکومت پر ہی ڈال رہے ہیں ابھی بھی ان کی تقریروں میں وزیراعظم کی بجائے اپوزیشن لیڈر کی جھلک نظر آتی ہے ابھی بھی وہ اپنی تقریروں میں ”مافیا” کا ذکر کرتے نہیں تھکتے جبکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ حکومت میں ہیں اور کوئی بھی ”مافیا” حکومتی سرپرستی کے بغیر کام نہیں کر سکتا
اپوزیشن بھی ”انتظار کرو دیکھو” کی پالیسی پر گامزن ہے وہ کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہیں انہیں اس بات کا اندازہ ہے کے ”اشارے” کے بغیر نتائج سینیٹ الیکشن کی طرح کے ہی آئیں گے اس لئے وہ اس حکومت کو اپنے بوجھ تلے ہی کمزور ہوتے اور گرتے دیکھنا چاہتے ہیں عمران خان پارٹی اختلافات کو اپنے تئیں ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں انہوں نے کچھ جارحانہ اقدام بھی اٹھائے ہیں جس میں خیبرپختونخوا کے 2 وزراء کی برطرفی شامل ہے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ لوگوں کے ساتھ ڈیویلپمنٹ فنڈز کے وعدے وعید بھی کیے ہیں لیکن پارٹی میں موجود واضح تقسیم اور دراڑوں کو اس طرح کی ”لیپاپوتی” سے کور نہیں کیا جاسکتا عمران خان کے لاہور کراچی کے دورے اور وزراء کی برطرفی وقتی فائرفائٹنگ تو ہے لیکن ابھی بھی راکھ میں بہت ساری چنگاریاں موجود ہیں جو کسی بھی وقت آگ کی شکل اختیار کر سکتی ہیں حالیہ سرویز میں عام آدمی کے ساتھ کاروباری طبقہ بھی حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے اور خوفناک بات یہ ہے کہ انہیں اس حکومت سے کوئی بہتری کی امید بھی نہیں ہے معاشرے میں یہ بڑھتی ہوئی مایوسی کسی بھی وقت انتشار کا سبب بن سکتی ہے حکومتی دعووں اور تقریروں سے عوام تنگ آچکی ہے اگر کسی کے گھر گیس اور بجلی کے بل پہلے سے چار گنا زیادہ آرہے ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی روٹین کی دواؤں کے بل ڈبل ہوچکے ہیں تو ایسی صورتحال میں کوئی بھی آپ کا ”بھاشن” سننے کو تیار نہیں ہوگا یہ بات جتنی جلدی سمجھ آ جائے اتنا ہی حکومت کے لیے اچھا ہے عوام کو باتوں کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے