Buy website traffic cheap

ماہرینِ غذائیت

ایسی غذائیں جوکولیسٹرول گھٹانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے

لاہور(ویب ڈیسک) ماہرینِ غذائیت کے مطابق کچھ غذائیں کولیسٹرول گھٹانے میں مددگارثابت ہو سکتی ہیں ۔ اگر یہ غذائیں روز استعمال کی جائیں تو دل اور جسم کی صحت کا ضامن ہوسکتا ہے۔ مندرجہ ذیل دی گئی غذائیں ماہر ین غذائیت کے مطابق سائنسی لحاظ سے صحتمند اور مضر یعنی ایل ڈی ایل کولیسٹرول گھٹانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اخروٹ اور دیگر گری دار میوے
بادام، پستے، اخروٹ اور ہیزل نٹ، لو ڈینسٹی لائپو پروٹین کولیسٹرول اور غیر سیر شدہ چکنائیوں کو کم کرسکتےہیں۔ برسوں کی تحقیق سے ان کی افادیت سامنے آچکی ہے۔
پھلیاں اور جو
جو (اوٹس) اور مختلف اقسام کی پھلیاں (بینز) پورے جسم سے کولیسٹرول نکالنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوپہر یا شام کے کھانے میں مختلف پھلیوں اور جو کے سیریل کو ضرور استعمال کیا جائے اور گوشت ترک کردیا جائے۔
مگرناشپتی (ایواکیڈو)
مگرناشپتی(ایواکیڈو)اب پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی دستیاب ہے۔ مگرناشپتی امائنو ایسڈز سے بھرپور ہے اور اس میں کئی طرح کے کیمیکل ایل ڈی ایل کولیسٹرول گھٹاتے ہیں۔
اسٹیرول اور اسٹینول والی غذائیں
پودوں میں معمولی مقدار ایسے کیمیکل پائے جاتے ہیں جو کولیسٹرول گھٹانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کیمیکلز کو اسٹیرول اور اسٹینول کہتے ہیں۔ ان کی دو یا تین گرام مقدار سے بھی ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی شرح میں 10 سے 15 فیصد کمی واقع ہوجاتی ہے۔ تاہم یہ دودھ اور دہی کی مصنوعات یا نارنجی کے رس کے ڈبوں میں شامل کرکے فروخت کئے جاتے ہیں۔ اگر بڑے اسٹور پر آپ کو یہ مل جائیں تو ضرور آزمائیں اس کے علاوہ ہرے پتوں والی سبزیاں اور رنگ برنگی پھل بھی کولسٹرول بھگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ان کا باقاعدہ استعمال آپ کو بہت سے امراض سے بچاتا ہے۔

کینسر روکنے والا اسپرے
لاہور(ویب ڈیسک) بعض سرطانی رسولیوں کو جراحی کے ذریعے نکالنا پڑتا ہے لیکن تمام تر احتیاط کے باوجود بھی کچھ خلیات (سیلز) ایسے رہ جاتے ہیں جو دوبارہ کینسر بڑھا سکتے ہیں لیکن اب ایک ’امنیاتی جیل اسپرے‘ سے ایسی باقیات کو ختم کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس طریقہ علاج کو امیونو تھراپی کی ہی ایک قسم بتایا جارہا ہے۔ اس عمل میں سرجری کے ذریعے نکالی جانے والی رسولی کے زخم پر اسپرے کیا جاتا ہے جس سے امنیاتی خلیات بچے کچھے سرطانی خلیات کو ختم کرتے ہیں خواہ وہ زخم پر ہوں یا جسم کے کسی اور حصے میں ہوں۔ اس عمل میں کوئی منفی اثرات بھی مرتب نہیں ہوتے۔

اس ضمن میں ایک خاص قسم کے سالمے (مالیکیول) CD 47 کو ہدف بنایا جاتا رہا ہے۔ یہ کئی اقسام کی سرطانی رسولیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل جہاں بھی ہوتا ہے وہاں بہت چالاکی سے سگنل خارج کرتا ہے کہ وہ خطرناک نہیں اور یوں جسمانی امنیاتی نظام سے بچ رہتا ہے لیکن اصل میں یہ اسی جگہ دوبارہ کینسر کو پروان چڑھاتا ہے۔ اب اسے ختم کرنے کے لیے جو بھی اینٹی باڈیز بنی ہیں وہ اسے روک تو دیتی ہیں مگر ساتھ ہی خون کے صحت مند سرخ خلیات کو بھی ختم کرتی ہیں کیونکہ ان کی معمولی مقدار وہاں بھی موجود ہوتی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس کے پروفیسر زین گیو اور ان کے ساتھیوں نے اس عمل کو مزید بہتر بنایا ہے۔ انہوں نے چوہوں کو پہلے جلد کے کینسر کا شکار بنایا پھر ان کی سرطانی رسولیاں نکالیں اور اس کے بعد ایک ایسے جیل کی پھوار ڈالی جس میں سی ڈی فورٹی سیون ختم کرنے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔ اس میں ایک اور کیمیکل تھا جو زخم کو قدرے کم تیزابی بناتا ہے تاکہ وہاں امنیاتی خلیات بھی اچھی طرح کام کرسکیں۔