Buy website traffic cheap

The habit of putting a finger in the nose can cause which dangerous disease?

ناک میں انگلی ڈالنے کی عادت کونسی خطرناک بیماری کی وجہ بن سکتی ہے؟

  ناک میں انگلی ڈالنے کی عادت ناصرف بچوں بلکہ کچھ نوجوان اور عمر رسیدہ افراد میں بھی ہوتی ہے جو کراہیت کا باعث تو ہوتی ہی ہے، ساتھ ہی ایک ایسی بیماری کا سبب بھی بن سکتی ہے جس سے پیچھا چھڑانا قطعی آسان نہیں۔2022 میں ہونے والی ایک تحقیق میں ناک میں انگلی ڈالنے کی عادت اور دماغی خلیات متاثر ہونے کے سبب ہونے والی بیماری ‘الزائمر’ کے درمیان غیر معمولی تعلق کا انکشاف کیا گیا۔ناک میں انگلی ڈالنے کی عادت ناصرف آپ کی ناک کے اندرونی خلیات کو تباہ کردیتی ہے بلکہ بیکٹیریاز کو ناک کے ذریعے دماغ میں پہنچنے کا آسان راستہ بھی فراہم کرتی ہے جس سے دماغ کے خلیات متاثر ہوتے ہیں۔الزائمر کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟ یہ اب تک ایک معمہ ہے، گو کہ اس پر کافی تحقیقات کی جاچکی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ناک میں انگلی ڈالنے کی عادت کی بیماری کی شروعات کا سبب ہوسکتی ہے۔* آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی سربراہی میں محققین کی ایک ٹیم نے ‘کلیمائڈیا نمونیا’ نامی بیکٹیریا کے ٹیسٹ کیے جو انسانوں میں نمونیا کی وجہ بن سکتے ہیں، وہ مریض جو الزائمر کا شکار ہیں، ان میں سے کچھ کے دماغ میں یہی بیکٹیریا دریافت ہوئے۔چوہوں پر کی جانے والی تحقیق میں محققین نے خیال ظاہر کیا کہ دماغ میں موجود بیکٹیریا ناک کے ذریعے وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔گریفتھ یونیورسٹی کےنیورو سائنسدان جیمز سینٹ جان نے 2022 کے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ‘ہم نے سب سے پہلے کلیمائڈیا نمونیا بیکٹیریا کو براہ راست ناک کے ذریعے دماغ میں بھیجا اور پھر جو ہم نے دیکھا وہ انسانوں کے لیے بھی ممکنہ طور پر خوفناک ہے’۔سائنسدان چوہوں میں تیزی سے اس بیکٹیریا کو پھیلتا اور اعصابی نظام کو اپنی لپیٹ میں لیتا دیکھنے پر حیران رہ گئے، یہ انفیکشن 24 سے 72 گھنٹوں میں ہوتا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ ناک کے ذریعے کوئی بھی وائرس یا بیکٹیریا دماغ میں تیزی سے پہنچتا ہے۔جیمز سینٹ جان کے مطابق ہمیں یہ مطالعہ انسانوں میں کرنے اور اس بات کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ انسانوں کے لیے بھی مکمل درست ہے یا نہیں؟ محققین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کو بہت سے لوگوں نے تجویز کیا ہے لیکن ابھی تک یہ مکمل نہیں ہوئی، ہمیں یقین ہے کہ یہی بیکٹیریا انسانوں کے دماغ میں بھی ہے لیکن یہ حتمی نہیں کہ یہ دماغ تک پہنچا کیسے ہے۔